ایک
انٹرویو میں شاہ رُخ خان کا کچھ یوں کہنا
تھا کہ ہماری فیملی میں زیادہ تر لڑکیاں
ہی ہیں۔ لڑکے بہت ہی کم ہیں۔ گھر میں اُس وقت بس میں ہی لڑکا تھا۔ جس کی وجہ سے
مجھے ہر کوئی بہت ہی پیارومحبت سے رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ میری نانی اماں مجھے والد
کے گھر سے اپنے گھر لے آئی تھیں۔ میں نے اپنی نانی کے گھر میں رکھنا شروع کر دی
تھا۔ اس وقت میری عمر پانچ سال کی ہو گی۔ جب میں نانی اماں کے پاس آ گیا تھا۔ نانی
کو عبدالرحمٰن نام بہت ہی پسند تھا۔ اس لیے انہوں نے میرا نام عبدالرحمٰن رکھ دیا
تھا۔ وہ مجھے عبدالرحمٰن کے نام سے ہی بلاتی تھیں۔
ایک
انٹریو میں ان کا کہنا تھا۔ کہ میرے والد نے میرا نام شاہ رخ خان رکھا تھا۔ پہلے
تو میرے گھر والوں کے من میں یہ شوق نے جنم لیا۔ کہ ہم اپنے بیٹے کو فوجی بنائیں
گے۔ یہاں تک کہ میرے گھر والوں نے مجھے ایک آرمی پبلک سکول میں داخلہ بھی لے دیا
تھا۔ وہ آرمی پبلک سکول میں جانے لگ گیا تھا۔ مجھے کسی سے معلوم پڑا کہ آرمی والے
بالوں کو بہت ہی چھوٹا کرتے ہیں۔ وہ بالوں کو بڑا کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
مجھے اپنے بالوں سے بہت ہی پیار تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا۔ کہ میرے بال چھوٹے ہوں۔
یہی وجہ تھی۔ کہ میں نے آرمی کے شوق کو
آہستہ آہستہ اپنے من سے دُور کر دیا۔
تقریباً
ڈیڑھ مہینے کے بعد میری ماں مجھ سے بہت ہی
اداس ہو گئی تھی۔ وہ نانی کے گھر گئی اور مجھے اپنے ساتھ گھر میں لے کر آ گئی۔ اس
دن کے بعد انہوں نے سوچا کہ ہم اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو انجییئر کی تعلیم ڈالوائیں
گے۔
انٹرویو
دیتے ہوئے شاہ رُخ خان کا کہنا تھا۔ کہ جب میں 15 یا 16 سال کا ہوا ۔ تو میرے والد
گرامی اس دنیا سے چل بسے۔ انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا۔ کہ ہر کسی باپ کا
سپنہ ہوتا ہے۔ کہ اس کا بیٹا فلاں بنے۔ آپ کے ابو جان مشتقبل میں آپ کو کیا دیکھنا
چاہتے تھے۔ اس کے جواب میں شاہ رُخ خان نے کہا : کہ میرے والد کا بس یہی کہتے رہتے
تھے۔ بیٹا! جو تیرا دل کرے مستقبل میں وہی کام کو اپنا لینا۔ میرے باپ کا کہنا یہی
ہوتا تھا۔ کہ جب تیرے کام کرنے کو دل کرے۔ تو کام کر لیا کرو۔ ورنہ نہ کیا کرو۔
کیونکہ جو لڑکے کچھ نہیں کرتے ہیں۔ جب وہ دل لگا کر کام کرتے ہیں۔ تو وہ کچھ بڑا
ہی کر کے دیکھاتے ہیں۔ وہی دنیا میں نام پیدا کرتے ہیں۔ ان کا بس یہی کہنا ہوتا
تھا۔ کہ بیٹا تم ہاکی کھیلنا مت بولنا کیونکہ وہ ہمارا قومی کھیل ہے۔
شاہ
رُخ خان کے والد کے کاروبار:۔
اُن
کا کہنا تھا۔ کہ میرے والد نے بتایا تھا۔ کہ جب میں 14 سال کا تھا۔ بیٹا مجھے جیل
بھی ہوئی تھی۔ آپ کا کہنا تھا۔ کہ میرے ابو جان ایک وکیل تھے۔ لیکن انہوں نے
پریکٹس میں قدم نہیں رکھا تھا۔ میرے والد گرامی کا مجھے بتاتے تھے۔ کہ میں نے
مولانا قلم آزاد کے مخالفت میں ایک الیکشن بھی لڑا تھا۔ لیکن مجھے اس الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔میرے نے بے شمار
کاروبار کیے لیکن ان کو کوئی بھی کاروبار عروج تک نہ پہنچا تھا۔ انہوں نے
ریسٹورنٹ، فرنیچر اور گاڑیاں کی ٹرانسپورٹ کا بھی کام کیا تھا۔ لیکن وہ ان سب
کاموں میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ میرے ابا جان نے دہلی کے ایک مشہور ہسپتال میں چائے کی دکان
بھی کھولی تھی۔
ماں
باپ کا انتقال:۔
میرے
ابا جان کو خطر ناک بیماری کینسر نے گھیر لیا۔ کینسر کی بیماری کی وجہ سے ابا جان کی جان چلے
گئی تھی۔انٹرویو میں ان کا کہنا تھا۔ کہ ہم بہت ہی غریب تھے۔ کہ میری سکول کی فیس
بھرنے کے لیے میری ماں رات دن محنت کرتی رہتی تھی۔ تب جا کر میرے سکول کی فیس ادا
ہوتی تھی۔والدگرامی کے مرنے کے چند مہینوں
کے بعد امی جان بھی اس دنیا سے پردہ کر گئی تھی۔ جب میری ماں کا انتقال ہوا
۔ تو تب میرے علم میں آیا: کہ ہمارے گھر والوں نے کتنے لوگوں سے قرض لیا ہوا ہے۔ میں
نے ماسٹر ماس کمینی کیشن کیا ہوا ہے۔
شاہ
رُخ خان نے زندگی میں کیا کیا کام کیے:۔
ان
کا کہنا ہے کہ جب میں اپنی بہن کو سکول سے لینے کے لیے جاتا تھا۔ تو مجھے وہاں کئی
کئی دیر تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تو میں وہ سارا وقت نیشنل سکول ڈرامہ میں گزرا
کرتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں میری معلاقات بڑے بڑے نامی گرامی ایکٹرز سے ہو
گئی تھی۔ جن کی وجہ لوگوں میں میری بھی پہچان ہو گئی تھی۔
ان
کا کہنا ہے۔ کہ میں سوتے ہوئے اچھے کپڑے اور خوشبو لگا کر سویا کرتا تھا۔ کہ مجھے
اچھے اچھے خواب آئیں۔ لیکن اب میں بہت ہی کم سوتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو بہت ہی تنہا
محسوس کرتا ہوں۔
ان
کا کچھ یوں کہنا ہے۔ کہ ایک بار فٹ بال اور ہاکی کے میدان میں میں کھیل رہا تھا۔
مجھے گہری چوٹ آ گئی تھی۔وہی کھیلیں میری آمدنی کا ذریعہ تھی۔ چوٹ کی وجہ سے میں
کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔
ان
کا کہنا ہے ۔ کہ میں پرنسپل ڈانس کا رول بھی کرتا رہا ہوں۔ میں اُس وقت کی مشہور
سیرل فوجی میں بھی بہت ہی دل لگا کر کام کیا تھا۔ جو کہ اُس وقت کے لوگوں بڑے ہی
شوق سے دکھا کرتے تھے۔ وہ ڈرامہ لوگوں میں بہت ہی مقبول ہو گیا۔ عوام میں میرے مشہور
ہونے کی وجہ وہ ڈرامہ نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ میں ان ڈرامہ میں کام کرنے کے لے
راضی نہیں تھا۔ لیکن کھیلوں میں حصہ نہ لینے کی بنا پر میں نے وہ کام کیا۔ اس میں بھی مجھے کافی شہرت ملی۔
شاہ
رُخ خان کو فلم کے لیے پہلا فون:۔
ان
کا کہنا تھا۔ کہ مجھے فلم میں قدم جمانے کے لیے پہلا فون ہری بابھیجا صاحب کا آیا
تھا۔ ہری کا کہنا تھا۔کہ شاہ رُخ میں چاہتا ہوں۔ کہ آپ فلم انڈسٹری میں کام
کرو۔کیونکہ آپ بہت ہی اچھی اکٹنگ کر لیتے ہو۔ تم بہت ہی کامیاب ہو جاؤ گے۔ لیکن
میں نے ان کی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
شاہ
رُخ خان کوفلم کے لیے دوسرا فون:۔
ان
کا کہنا تھا۔ میں اپنے گھر میں کسی کام میں مصروف تھا۔ کہ اچانک میرے گھر کے فون
کی بل بجی ۔ میں فون کال اُٹھائی۔ تو مجھے
آگے بندے کی آواز آئی۔ کہ میں ہیمہ جی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ
کوئی میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔ کہ کون ہیمہ جی
مجھ سے بات کرنا چاہ رہی ہے۔ آگے سے آواز آئی کہ ہیمہ مالینی جی آپ سے کچھ بات
کرنا چاہتی ہے۔
میں نے اپنی امی جی کو مخاطب کر کہا: کہ امی جان
مجھے فلم میں کام کرنے کے لیے فون آ رہے ہیں۔ لیکن فلموں میں کام کرنے کے لیے میری
کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ شاہ رُخ خان کا کہنا تھا۔ کہ میں اس وجہ سے فلم انڈسڑی سے
پرہیز کر تا تھا۔ کہ مجھے اکٹنگ نہیں آتی تھی۔ میں یہی سمجھا تھا۔ کہ سکرین پر لوگ
میرا مذاق اُڑائیں گے۔ لیکن جب میں دہلی شہر میں بڑے بڑے ایکٹروں سے ملتا تھا۔ وہ
میرے حوصلہ بڑھتے تھے۔ کہ تم بہت ہی اچھے ایکٹر ہو۔ وہ میری تعریفیں کیے بغیر نہ
رکھتے تھے۔
شاہ
رُخ خان اور بمبئی:۔
ان
کا کہنا کچھ یوں تھا۔ کہ میں ایک بار ایک ریسٹورنٹ پر بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا۔
کہ کہ ایک بندہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور کہنا کہ تم فلموں
میں کام کرنا پسند کرو گے۔ میں نے اس بندے کو جواب میں نہیں کہا۔ میں نے کہا کہ
میں ڈراموں میں ہی کام کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔ لیکن وہ بندہ میرے سے بہت ہی ضد کرنے لگا۔ آخر کار!
میں نے اس کو فلموں میں کام کرنے کے لیے ہاں کہا دیا۔
"دیوانہ
اور راجو بن گیا جنٹل مین"
انہوں
کا کہنا تھا۔ کہ میں جس دن بمبئی آیا تھا۔ تو میرے کچھ نہ تھا۔ پھر ایک دن میں
پانچ فلمیں دستخط کر دی تھی۔ اس روز کے بعد میں نے بمبئی سے پیچھے مڑ کر دیکھا ہی
نہیں تھا۔ لیکن جب میں یہاں آیا تھا۔ میرے پاس واپس جانے کے لیے کرایہ تک نہ تھا۔
میں غریبوں کی طرح سڑکوں کے کنارے ہی سو جایا کرتا تھا۔
ہما
جی نے فلم انڈسٹری میں میری بہت مدد کی ۔ وہ مجھے
اکٹنگ کر کے سِکھاتی رہتی تھیں۔
شاہ
رُخ خان کی شادی:۔
شاہ
رُخ خان کا کہنا تھا۔ کہ جب میرے شادی ہوئی تھی۔ اس وقت میری عمر 18 سال کی ہو
گئی۔ میری بیوی کا نام غوری ہے۔ وہ شادی کے وقت 14 سال کی تھی۔
پھر
ہما جی نے مجھے فلموں میں اکٹن کر کے سِکھایا تھا۔ بمبئی آنے سے 3 مہینے بعد میں
نے غوری سے شادی کر لی تھی۔ غوری 14 سال کی اور میں 18 سال کا تھا۔میں مسلمان اور
میری بیوی ہندوں ہے۔
0 Comments